Friday, October 24, 2014

انٹرویو کے دوران پوچھے جانیوالے ممکنہ سوالات

 انٹرویو نوکری کے حصول کے لیے ایک اہم قدم ہے ، انٹرویو کنندہ کو آپ اپنے جوابات سے مطمئن کردیں تو کسی حدتک آپ کی نوکری پکی ہوجاتی ہے لیکن یہ بھی نہیں ہوسکتا کہ صرف انٹرویو کی بنیاد پر ہی نوکری مل جائے ۔ماہرین کے مطابق جو افراد اپنے انٹرویو کے دوران انٹرویو لینے والے سے سوالات کرتے ہیں، ان کو نوکری ملنے کے امکانات زیادہ روشن ہوجاتے ہیں، انٹرویو کے دوران کمپنی سے متعلق اور اپنے کریئر کے حوالے سے جولوگ سوالات کریں انہیں کمپنی کے ماحول میں گھل مل جانے میں آسانی ہوتی ہے۔کچھ اہم سوالات درج ذیل ہیں ۔ 
تعلیمی قابلیت 
ایک اچھے انٹرویو میں آپ کی طرف سے جمع کرائے گئے کاغذات کا مطالعہ پہلے نمبر پر ہوتاہے ، اچھے طریقے سے اپنے کاغذات پیش کریں تاکہ انٹرویو لینے والے پر آپ کی شخصیت کا کوئی بھی منفی پہلو سامنے نہ آئے ۔کسی بھی کوتاہی یا غفلت کی وجہ سے آپ کی نئی نوکری جاسکتی ہے ، کاغذات کو ایک اچھی فائل میںترتیب سے لگا کر پیش کریں ۔ 
عہدے کا عنوان 
کسی بھی ملازمت کا عنوان اس کے تمام پہلوو¿ں کو بیان نہیں کرتا۔ انٹرویو کے دوران آپ اپنے عہدے کے حوالے سے تفصیلات معلوم کریں کہ کمپنی آپ سے کیا امیدیں رکھتی ہے۔
کام کی نوعیت
آپ کو اس کام کے بارے میں علم ہوناچاہیے جس کے لیے کمپنی آپ کی خدمات حاصل کرنے جارہی ہے ، ایساممکن ہے کہ آپ ایک ہی کمپنی میں ایک کام کی بجائے دوسرا کام بخوبی سرانجام دے سکتے ہوں ۔ 
متعلقہ عہدے کی کمپنی کیلئے ضرورت
 یہ آپ پر منحصر ہے کہ آپ زیادہ ’فرق‘ پیدا کرنے والے کردار میں خوش ہیں یا پھر آپ ’چھپے رستم‘ کی طرح کام کرنا پسند کریں گے۔
ساتھی ، کولیگز کے بارے میں سوچ بچار
عمومی طورپر انٹرویوز میں تین سے چار افراد شامل ہوتے ہیں۔ اگر آپ کے انٹرویو میں ایسا معاملہ نہیں تو اس سوال کا استعمال کریں تاکہ ٹیم میں شامل افراد کے بارے میں آپ پہلے ہی معلومات رکھتے ہوں کیونکہ برابر میں بیٹھا شخص آپ کے اس سفر پر اثر ڈال سکتا ہے۔
کام میں آسانی 
اس سوال سے آپ کوپتہ چل جائے گا کہ آپ پر کون سب سے زیادہ دباو¿ ڈالنے والا ہے جبکہ اپنے ساتھیوں کو خوش رکھنے کے حوالے سے بھی اس سوال کا جواب موزوں ثابت ہوسکتا ہے۔
کمپنی کے لیے کامیابی کی تعریف 
آپ یہ جان سکتے ہیں کہ آپ کی پوزیشن سے آپ کمپنی کی ’کامیابی‘ میں کردار ادا کرسکیں گے یا نہیں۔ تفصیلات معلوم کیجئے کہ آپ سے کس طرح کے کام کی امید کی جائے گی جبکہ اس عہدے پر کام کرنے والے پرانے ملازمین سے بات چیت بھی سودمند ثابت ہوسکتی ہے۔
مقررہ اہداف 
امکانات ہیں کہ آپ کو نوکری پر رکھنے والوں کے ذہنوں میں پہلے ہی سے آپ کے رول کے بارے میں منصوبہ ہو۔ پتہ کریں کہ وہ آگے آنے والے مہینوں میں آپ سے کیا امیدیں لگائے بیٹھے ہیں اور خود سے سوال کریں کہ کیا ان امیدوں کو پورا کرنا ممکن ہے۔
مقصد
یہ انٹرویو کے دوران اہم ترین سوالوں میں سے ایک ہے۔ ریسرچ کے مطابق ملازمین اس وقت سے زیادہ خوش ہوتے ہیں جب ان کے مالکان کے اہداف ان کے انفرادی اہداف سے مماثلت رکھتے ہوں۔
آپ ان سوالات کو ایک ہی کمپنی میں لیے جانے والے مختلف انٹرویوز میں بھی استعمال کرسکتے ہیں جس سے آپ کو صورت حال کی ایک بہتر تصویر مل سکتی ہے۔

ایپل کا پہلا ’’ون کمپیوٹر ‘‘ 9 لاکھ 5 ہزار ڈالر میں نیلام ہوگیا Apple,s First Computer

یویارک: امریکی کمپیوٹر ساز کمپنی ایپل کا تیار کردہ پہلاکمپیوٹر 9لاکھ 5 ہزار ڈالر
برطانوی نیلام گھر بون ہیمز کے مطابق 9لاکھ 5ہزار ڈالر میں فروخت ہونے والا ایپل ون کمپیوٹر سٹیو  میں نیو یارک میں فروخت ہوگیا۔وازنیاک نے 1976ء میں ایپل کے شریک بانی سٹیو جوبز کے 

نیلام گھر کے مطابق کمپیوٹر مشی گن کے شہر ڈئیر برن کے ہینری فورڈ میوزیم نے خریدا اور یہ دنیا کا مہگیراج میں یا اپنی ہمشیرہ کے گھر میں تیار کیا جب کہ کمپیوٹر ہاتھ سے تیار کیا گیا تھا۔نگا ترین کمپیوٹر ہے۔ بون ہیمز کے مطابق کمپیوٹر ایک مدر بورڈ ‘ تاریخی کی بورڈ ‘ سانیو مانیٹر ‘ لکڑی کے ڈبے میں بند تاریخی پاور سپلائی اور دو ٹیپ ڈیکس پر مشتمل ہے اور کمپیوٹر کی فروخت سے عالمی ریکارڈ قائم ہونے پر وہ بے حد خوش ہیں۔

Thursday, October 23, 2014

نوبل انعام کی ساری رقم پاکستان میں بچوں کی تعلیم پر خرچ ہو گی- ملالہ یوسفزئی


برمنگھم =نوبل انعام یافتہ پاکستانی طالبہ ملالہ یوسفزئی نے کہا ہے کہ سوات میں دہشت گردی کے ذمہ دار طالبان ہی ہیں، پاکستان میرا وطن ،سوات میری مٹی ہے، جلد پاکستان جا کر سوات جاﺅں گی، مغرب میں ہوں مگر دل پاکستان میں ہے، نوبل انعام کی ساری رقم پاکستان میں بچوں کی تعلیم پر خرچ ہو گی، اسکول نہ جانے والے بچوں کو تعلیم کی طرف لانا بڑی اہم ہے، صدر اوباما سے ملاقات بھی تعلیم کے فروغ کےلئے کی،تمام سیاسی پارٹیاں مل کر ملک کی خوشحالی کےلئے سوچیں۔ بدھ کوٹی وی انٹرویو میں ملالہ یوسف زئی نے کہا کہ نوبل امن ایوارڈ جیتنے کی مجھے امید نہیں تھی لیکن جب ملا تو اس پر اسکول میں مختصر تقریر کی کیونکہ اس وقت میں بہت نروس تھی میں نو انعام کی ساری رقم پاکستان میں بچوں کی تعلیم پر خرچ کروں گی کیونکہ میں پاکستان کی خدمت کرنا چاہتی ہوں۔ انہوں نے کہا کہ ملالہ فنڈ کا مقصد پاکستان میں بچوں کی تعلیم کو عام کرنا ہے اور اسکول نہ جانے والے بچوں کو تعلیم کی طرف لانا بڑی مہم ہے اب میری تمام توجہ بچوں کی تعلیم پر مرکوز ہے، میری خواہش ہے کہ ہر بچے کو تعلیم کی بہتر سہولیات ملیں۔ ملالہ نے ہا کہ صدر اوباما سے بھی میری ملاقات تعلیم کے فروغ کےلئے تھی۔ ملالہ فنڈ سے غریب والدین کو مالی امداد بھی دی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میرا وطن اور سوات میری مٹی ہے اور میں رہتی مغرب میں ہوں مگر میرا دل پاکستان میں ہے، سوات میں دہشت گردی کے ذمہ دار طالبان ہی ہیں، میں بہت جلد پاکستان جا کر سوات جاﺅں گی۔ انہوںن ے کہا کہ اب پاکستان کی تمام پارٹیاں اختلافات چھوڑ کر مل بیٹھ کر ملک کی خوشحالی کی طرف سوچیں۔ انہوں نے کہا کہ بینظیر بھٹو امریکہ اور مغرب کیلئے بھی ایک مثال ہیں کیونکہ مغرب میں حقوق نسواں کی بڑی باتیں کی جاتی ہیں لیکن آج تک امریکہ میں کوئی خاتون صدر کے منصب تک نہیں پہنچی۔ ملالہ نے کہا کہ وہ تسلیمہ نسرین کو جانتی تک نہیں انہیں یہ اندازہ نہیں تھا کہ جس گروپ کی تصویر لی جا رہی ہے اُس میں تسلیمہ نسرین بھی موجود ہیں۔ سلمان رشدی کے بارے میں کچھ نہیں جانتی ہوں۔ پی ٹی وی سے انٹرویو میں ملالہ کے والد نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ نوبل انعام حاصل کرنے پر جو خوشی ہوئی اُس کا احساس کم ہو رہا ہے کیونکہ انعام حاصل کرنے پر پاکستان میں ہوتے تو اِس بڑے اعزاز پر زیادہ بہتر انداز میں خوشیاں مناتے، انہوں نے کہا انہیں ملالہ کی پیدائش پر بڑی خوشی ہوئی۔ حالانکہ پشتون معاشرے میں لڑکوں کی پیدائش کو اہمیت دی جاتی ہے۔ ضیاءالدین یوسفزئی کا کہنا تھا کہ جو لوگ ہم پر الزامات لگاتے ہیں وہ حقیقت کو فراموش کرتے ہیں ہم وہ لوگ نہیں جنہیں کوئی استعمال کر سکے اپنے دل و دماغ سے سوچتے ہیں ہمیں صرف وطن کیلئے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ یو کے آنا صرف حادثہ تھا۔ عالمی برادری سے سپورٹ ملنا مخصوص حالات کا نتیجہ ہے یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ عالمی برادری نے پاکستان کو جلا وطن کر رکھا ہے۔ ہم کہیں سبز پاسپورٹ نہیں دکھا سکتے۔ دہشت گردی کے خلاف آواز اٹھائی، امن کا جھنڈا بلند کیا، کیا یہ سازش ہے۔ کیا سبز پاسپورٹ کی اہمیت بلند کرنا بُری بات ہے۔ ضیاءالدین نے کہا شک کرنا بُری بات نہیں اندھی تقلید بُری ہے۔ شک کی بنیاد تعصب اور تنگ نظری پر نہیں ہونی چاہئے ملالہ کے والد نے کہا کہ تسلیمہ نسرین کو گروپ فوٹو کے وقت میرے لئے ممکن نہیں تھا۔ جس شخص کو سلمان رشدی قرار دیا جا رہا ہے وہ رشدی نہیں بلکہ یورپی یونین کا بڑا لیڈر ہے۔ میں اپنی بات پر قائم ہوں اور آج بھی کہتا ہوں کہ نبی پاک کی کوئی توہین نہیں کر سکتا ہے ہمیں اپنی املاک کو نقصان نہیں پہنچانا چاہئے۔ ضیاءالدین یوسفزئی نے کہا کہ تسلیم نسرین نے بلاگ میں لکھا تھا کہ ملالہ تم کہتی ہو مجھے اللہ تعالیٰ نے بچایا ہے ایسی بات نہیں ہے تمہیں ڈاکٹروں نے بچایا ہے۔ ضیاءالدین نے مزید کہا کہ جبکہ ملالہ کی والدہ یو کے آئیں تو انگریزوں کا اخلاق دیکھ کر بہت متاثر ہوئیں اور آہ بھر کر کہا کاش یہ کلمہ پڑھ لییں مسلمان ہو جائیں۔ ملالہ یوسفزئی نے انکشاف کیا ہے کہ جس روز ان کو امن کا نوبل انعام ملنے کا اعلان کیا گیا اس روز وہ اپنا سکول کا کام مکمل نہیں کر پائی تھی ، جس کے نتیجے میں مجھے اپنی استانی سے ڈانٹ بھی پڑی تھی۔ بدھ کو برطانوی ٹی وی چینل کو دئیے گئے اپنے انٹرویو میں ملالہ نے کہاکہ جب مجھے امن کا نوبل انعام ملا تو میں کلاس روم میں تھی اور ٹیچر کے بتانے پر بہت خوشی ہوئی۔ انہوں نے کہاکہ نوبل انعام ملنے کا اعلان کیا گیا اس روز وہ اپنا سکول کا کام مکمل نہیں کر پائی تھیں ، جس کے نتیجے میں انہیں اپنی استانی سے ڈانٹ سے ڈانٹ بھی پڑی تھی۔ نوبل انعام یافتہ ملالہ یوسفزئی کی والدہ تورپکئی نے کہاہے کہ ملا لہ کو گھر میں پیار سے بلی اور خوبانی کہہ کر پکارا جاتا ہے۔ بدھ کو سرکاری ٹی وی کو انٹرویو کے دوران ملالہ یوسفزئی کی والدہ تورپکئی نے کہا کہ ہم ملالہ کو گھر میں پیار سے بلی اور خوبانی کہہ کر پکارتے ہیں۔ ہمارے دل میں خوف ہے لیکن پاکستان ہمارا وطن ہے ہم واپس ضرور جائیں گے۔ مجھے خوشی ہے کہ ملالہ دہشت گردوں سے بچ کر آگئی۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کی طرف سے ملالہ کی سیکیورٹی کیلئے پیشکش کی گئی تھی۔ میں نے ملالہ کی دادی کو حملے کی بجائے ایکسیڈنٹ کا بتایا تھا۔ 

Wednesday, October 22, 2014

سیلف میڈ شہزادہ ,شہزادہ پرنس الولید بن طلال, Prince alwaleed bin talal


پرنس ولید کے خواب بہت اونچے تھے لیکن اس کے والد نے اسے عملی زندگی شروع کرنے کیلئے صرف 30 ہزار ڈالر کا ابتدائی سرمایہ دیا‘پرنس نے اس رقم کو بھی غنیمت جانا کیونکہ وہ کم از کم اپنی کمپنی قائم کر کے کام تو شروع کر سکتا تھا۔ اس نے سعودی عرب پہنچنے کے چند ماہ بعد ہی کنگڈم ہولڈنگ کے نام سے کمپنی کی بنیاد رکھی ۔ ابتدائی دو سال اس کمپنی کیلئے کچھ اچھے نہیں تھے لیکن پھر پرنس الولید کی شبانہ روز محنت نے کمپنی کی بنیادوں کو مستحکم کرنا شروع کر دیا۔پرنس کی کمپنی کو جنوبی کوریا کی ایک کمپنی کے ساتھ اشتراک میں 8 ملین ڈالر کا ٹھیکہ ملا‘ اس ٹھیکے کے مطابق کمپنی کو سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض کے قریب ایک فوجی چھاؤنی بنانا تھی۔ اس وقت تک پرنس کی کمپنی کا دفتر صرف چار کمروں پر مشتمل تھا اور اس میں سے بھی ایک کمرے میں پرنس کا دفتر تھا۔ دلچسپ امر یہ بھی ہے کہ یہ جگہ بھی پرنس کے والد ہی نے اسے تحفے میں دی تھی۔ کمپنی کے قیام کے چند ماہ بعد ہی سرمایہ ختم ہو گیا اور پرنس کو قرضہ لینے کیلئے سعودی اور امریکن بینک جانا پڑا‘ پرنس نے بینک سے ایک ملین کا قرض لیا اور اس کے عوض اپناوہ مکان بھی رہن رکھنا پڑا جس میں وہ اور ان کے بچے مقیم تھے۔ دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ یہ مکان بھی پرنس کو والد ہی نے دیا تھا۔ وقت کے انقلابات دیکھئے کہ وہ پرنس جنہوں نے 1980 میں سٹی بینک سے دس لاکھ ریال کا قرض لینے کیلئے اپنا مکان رہن رکھا تھا ‘ دس سال بعدیعنی 1990ء میں سٹی بینک کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کیلئے چھ سو ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کی۔ اپنی جدوجہد شروع کرنے کے پچیس سال بعد ان کی دولت کا تخمینہ 20 ارب ڈالر لگایا جاتا ہے اورانہیں دنیا کے دولت مند ترین افراد کی فہرست میں شمار کیا جاتا ہے۔پرنس الولید بن طلال کی تیز رفتار ترقی نے کئی لوگوں کو ان سے حسد پربھی مجبور کر دیا‘ ان میں ان کے اپنے خاندان کے کئی لوگ بھی شامل ہیں لیکن دوسری طرف ان کے خاندان کے کئی افراد نے ان کی مدد بھی کی۔ عالمی میڈیا نے بھی ان کی ترقی کے پیچھے منفی ہتھکنڈے تلاش کرنے کی کوششیں کیں لیکن انہیں منہ کی کھانا پڑی۔ ان کی ترقی عالمی پریس کو بھی حیران کرتی رہی۔ برطانوی ادارے ’’اکانومسٹ‘‘ نے ایک طویل عرصے تک ان کے کاروبار کی جاسوسی بھی کی لیکن ان کے کاروبار میں کبھی کسی منفی ہتھکنڈے کا کوئی دخل نہیں ملا۔ بڑے بڑے سرمایہ کاروں‘معیشت کے موضوع پر چھپنے والے اخباروں‘ رسالوں اور نامی گرامی معاشی ماہرین کو تسلیم کرنا پڑا کہ پرنس الولید کو قدرت نے غیر معمولی صلاحیتوں سے نوازا ہے‘ ان کے کاروبار میں کوئی پراسراریت تھی تو وہ قدرت تھی۔ کئی مرتبہ انہوں نے بڑی بڑی ڈوبتی ہوئی کمپنیوں میں سرمایہ کاری کی جسے معاشی جغادریوں نے حماقت سمجھا مگر بعد میں وہی کمپنیاں سنبھل کر پہلے سے بھی زیادہ ترقی کرنے لگیں۔
پرنس الولید کے بارے میں کم معلومات رکھنے والے ایک طویل عرصہ تک یہی سمجھتے رہے کہ صرف خاندانی دولت کی بنیاد پر ان کا شمار دنیا کے سب سے دولت مند افراد میں ہوتا ہے‘ انہیں معلوم نہیں تھا کہ یہ دولت پرنس نے خود کمائی ہے‘ اس میں شک نہیں کہ شاہی خاندان سے تعلق رکھنے والے بیشتر لوگ دولت مند ہیں لیکن پھر بھی بھلا خاندانی دولت اور امارت کی بنیاد پر کوئی کتنا امیر بن سکتا ہے۔ سعودی عرب میں ویسے بھی شہزادوں کی تعداد پانچ ہزار ہے‘ ان میں سے بعض صرف شاہی وظیفے پر گزارا کرتے ہیں۔ پرنس الولید نے 1989ء تک اپنی دولت کے ابتدائی ڈیڑھ ارب ڈالر سعودی عرب میں ہی مختلف کاروبار کرتے ہوئے کمائے لیکن پھر وہ 1990ء میں خاصے دھماکا خیز انداز میں بین الاقوامی کاروبار کے میدان میں کود پڑے اور جلد ہی انہوں نے عالمی شہرت رکھنے والے سرمایہ داروں کو حیران کر دیا۔ انہوں نے اپنے تجربات کی بناء پر جلد ہی کاروبار کے سلسلہ میں تین بنیادی نکتے سمجھ لئے۔ سرمایہ کاری کے سلسلہ میں ایک خاص قسم کی ذہانت تو قدرتی طور پر ان میں موجود تھی ہی لیکن اپنی جدوجہد کے دوران انہوں نے یہ بھی سیکھا کہ دولت کمانے کا سب سے اچھا طریقہ بینک ہیں۔ سب سے زیادہ تیز رفتاری سے دولت ٹھیکوں کے ذریعہ حاصل کی جا سکتی تھی اور سب سے زیادہ دولت کمانے کا ذریعہ وہ کام تھے جو آپ مقتدر حلقوں کے قریب رہتے ہوئے کرتے ہیں۔ ان کی اپنی کاروباری زندگی انہی تین اصولوں کے گرد گھوم رہی ہے۔ انہوں نے ابتداء میں ٹھیکیداری سے پیسہ کمایا‘ پھر تعمیرات کے کام میں ہاتھ ڈالا ‘اس کے بعد انہوں نے چھوٹے چھوٹے بینکوں کو ایک دوسرے میں ضم میں کرنا شروع کیا‘ اس راستے پر چلتے ہوئے وہ سٹی بینک تک پہنچ گئے‘ اس وقت سٹی بینک بحران کا شکار تھا جب انہوں نے اس کے چھ سو ملین ڈالر کے شیئرز خرید کر اسے سنبھالا دیا۔دنیا کے کئی بڑے سرمایہ داروں نے ان کی سرمایہ کاری کو حماقت سمجھا تھا لیکن ان کی یہ ’’حماقت‘‘ آگے چل کر ان کیلئے بے پناہ کامیابی ثابت ہوئی۔
خطرات مول لینا اور جواء کھیلنے کے انداز میں نہایت چالاکی سے سرمایہ کاری کرنا بھی ان کا ایک انداز ہے لیکن کبھی وہ بے صبری اور جلد بازی میں سودا نہیں کرتے‘ اس کیلئے طویل انتظار کرتے ہیں۔ ایک بار انہوں نے ریاض میں بڑے قطعہ اراضی خریدنے کا ارادہ کیا‘ اس کے مالک نے جب دیکھا کہ پرنس جیسا سرمایہ کار اور ایک بڑی کاروباری شخصیت اس کی زمین میں دلچسپی لے رہی ہے تو اس نے خاصی ہوشربا قیمت مانگ لی۔ پرنس خاموشی سے واپس آ گئے اور انہوں نے پلٹ کر اس آدمی سے کوئی بات نہیں کی۔ کچھ دنوں بعد 1990ء میں عراق نے کویت پر حملہ کر دیا‘ پوری عرب دنیا میں ہیجان پھیل گیا‘ زیادہ تر عرب ممالک کے سربراہوں کا خیال تھا کہ یہ جنگ صرف کویت تک محدود نہیں رہے گی۔ بات بہت آگے تک جائے گی۔ پرنس الولید جس کے پاس زمین خریدنے گئے تھے اس کا مالک بھی گھبرا گیا اور بھاگتا ہوا پرنس کے پاس پہنچا‘ اس نے پہلے اپنی زمین کی جو قیمت مانگی تھی اب وہ اس کی ایک تہائی رقم لینے پر تیار تھا۔ اسے شائد یہ تیسرا حصہ قیمت ملنے کی امید بھی نہیں رہی تھی کیونکہ عرب دنیا کے بیشتر ممالک میں زمین اور جائیداد کی خرید و فروخت رک گئی تھی۔ پرنس نے مالک سے یہ زمین خرید لی‘ جلد ہی جنگ بندہو گئی‘ امریکا کی مداخلت پر عراق کو کویت پر قبضہ چھوڑنا پڑ گیا اور حالات معمول پر آ گئے اور پرنس کی زمین قیمت میں اضافے کے بعد کئی گنا مہنگی ہو گئی۔ چار سال بعد پرنس نے یہی زمین فروخت کی تو اسے ملین ڈالر کا منافع ہوا۔ یہ ہے پرنس الولید اور ان کا کاروباری انداز۔ اور یہ ہے وہ سیلف میڈ شہزادہ جس نے اپنی محنت کے بل بوتے پر مقام بنایا اور
دنیا آج اسے امیر ترین آدمی سمجھتی ہے۔

Monday, October 20, 2014

Polio workers in Khyber refuse to vaccinate children

 Polio workers in some parts of Khyber Agency refused to vaccinate children at the start of a three-day drive starting Monday with at least 116,000 children likely to be vaccinated in the tribal region.
Polio workers in some parts of Khyber refused to carry on with the drive over non-payment of stipends from the previous three campaigns, sources said.
Workers in some areas of Landi Kotal and Jamrud have also refused to conduct the vaccination drive, citing non-payment of their previous dues. On the other hand, authorities said that the funds though released had been embezzled at the local level, adding that the matter was being investigated.
Dr Sarfaraz Afridi, coordinator for the polio vaccination drive in Khyber Agency, said that the payment had been released but had been fraudulently withdrawn at the local level. He added that the political administration and concerned authorities have been asked to probe into the matter.
Two days earlier, another polio case had been reported in Khyber in an 18-months-old female child from the Akakhel area of Bara.
The government’s failure to reach out to unvaccinated children has already taken up the total number of polio cases in Khyber to 46. Khyber also has the highest number of reported polio cases after the restive North Waziristan Agency. Moreover, a recent World Health Organisation (WHO) report said Pakistan was responsible for nearly 80 per cent of polio cases reported globally.
Meanwhile, Three days polio campaign which was due to start on Monday in the areas Rasheedabad, Yousaf Ghoth, Mawacha Ghoth of Baldia town has been suspended due to lack of security.
Polio teams gathered early morning to move to their respective places for polio vaccination but workers couldn’t leave due to insufficient security. According to the sources, polio campaign has been started in other areas of Karachi including Korangi and Landhi on Monday.
At least 64 people, including health workers and security personnel, have been killed in militant attacks on polio vaccination teams since December 2012.
Expressing serious concerns over increasing polio cases, government decided to remove hurdles faced by polio teams in Karachi, FATA and parts of Balochistan but still there are no proper arrangements of security for polio workers.

900 families leaving Tirah valley after military operation

 After the military operation “Zarb-e-Azb Khyber 1” launched in Bara Khyber Agency, at least 900 families began leaving their homelands to protect themselves and their family members in Tirah valley of Bara.
The military operation launched to wipe out of the area of miscreants is underway on the forth consecutive day in Tirah valley of Khyber Agency. A great number of families owing to fear of military operation have quitted their areas and migrated to safer places in last few days.
According to the statistics of political tehsildar of Jamrud, 588 families have entered into Jamrud tehsil till now and their registration process at Lala Kandao is underway which will be shared with FATA Disaster Management Authority (FDMA) later on. He further informed that the transportation facility and Rs 2000 cash is being given to each family.
The displaced families, he said were hailing from Aka Khel and Koki Khel tribe residing in volatile Tirah valley of Khyber Agency.
Assistant Political Agent Bara, Nasir Khan when contacted saying that around 300 families have entered into Orakzai Agency after leaving Tirah valley and their registration is continuing at Chamanjana area of Orakzai.
In recent past, at least 3000 families of Tirah valley left their homes after Tehrik-e-Taliban Pakistan an outlawed faction scattered on the mountains of Tirah valley, compelling them to leave.
As per the media reports, this is not first time, the tribesmen of Bara tehsil are migrating to safe places while around 85000, registered families have already been living since 2009 as Internally Displaced Persons (IDPs) in Jalozai camp in Nowshehra district and in restive areas of Peshawar due to military operation and uncertainty. It is worth mentioning here that the first large scale operation had begun on 1st September in 2009 with the names of Darghlam, Bia Darghlam and Khwakh Ba De Sham in Bara Khyber Agency.