Wednesday, October 22, 2014

سیلف میڈ شہزادہ ,شہزادہ پرنس الولید بن طلال, Prince alwaleed bin talal


پرنس ولید کے خواب بہت اونچے تھے لیکن اس کے والد نے اسے عملی زندگی شروع کرنے کیلئے صرف 30 ہزار ڈالر کا ابتدائی سرمایہ دیا‘پرنس نے اس رقم کو بھی غنیمت جانا کیونکہ وہ کم از کم اپنی کمپنی قائم کر کے کام تو شروع کر سکتا تھا۔ اس نے سعودی عرب پہنچنے کے چند ماہ بعد ہی کنگڈم ہولڈنگ کے نام سے کمپنی کی بنیاد رکھی ۔ ابتدائی دو سال اس کمپنی کیلئے کچھ اچھے نہیں تھے لیکن پھر پرنس الولید کی شبانہ روز محنت نے کمپنی کی بنیادوں کو مستحکم کرنا شروع کر دیا۔پرنس کی کمپنی کو جنوبی کوریا کی ایک کمپنی کے ساتھ اشتراک میں 8 ملین ڈالر کا ٹھیکہ ملا‘ اس ٹھیکے کے مطابق کمپنی کو سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض کے قریب ایک فوجی چھاؤنی بنانا تھی۔ اس وقت تک پرنس کی کمپنی کا دفتر صرف چار کمروں پر مشتمل تھا اور اس میں سے بھی ایک کمرے میں پرنس کا دفتر تھا۔ دلچسپ امر یہ بھی ہے کہ یہ جگہ بھی پرنس کے والد ہی نے اسے تحفے میں دی تھی۔ کمپنی کے قیام کے چند ماہ بعد ہی سرمایہ ختم ہو گیا اور پرنس کو قرضہ لینے کیلئے سعودی اور امریکن بینک جانا پڑا‘ پرنس نے بینک سے ایک ملین کا قرض لیا اور اس کے عوض اپناوہ مکان بھی رہن رکھنا پڑا جس میں وہ اور ان کے بچے مقیم تھے۔ دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ یہ مکان بھی پرنس کو والد ہی نے دیا تھا۔ وقت کے انقلابات دیکھئے کہ وہ پرنس جنہوں نے 1980 میں سٹی بینک سے دس لاکھ ریال کا قرض لینے کیلئے اپنا مکان رہن رکھا تھا ‘ دس سال بعدیعنی 1990ء میں سٹی بینک کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کیلئے چھ سو ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کی۔ اپنی جدوجہد شروع کرنے کے پچیس سال بعد ان کی دولت کا تخمینہ 20 ارب ڈالر لگایا جاتا ہے اورانہیں دنیا کے دولت مند ترین افراد کی فہرست میں شمار کیا جاتا ہے۔پرنس الولید بن طلال کی تیز رفتار ترقی نے کئی لوگوں کو ان سے حسد پربھی مجبور کر دیا‘ ان میں ان کے اپنے خاندان کے کئی لوگ بھی شامل ہیں لیکن دوسری طرف ان کے خاندان کے کئی افراد نے ان کی مدد بھی کی۔ عالمی میڈیا نے بھی ان کی ترقی کے پیچھے منفی ہتھکنڈے تلاش کرنے کی کوششیں کیں لیکن انہیں منہ کی کھانا پڑی۔ ان کی ترقی عالمی پریس کو بھی حیران کرتی رہی۔ برطانوی ادارے ’’اکانومسٹ‘‘ نے ایک طویل عرصے تک ان کے کاروبار کی جاسوسی بھی کی لیکن ان کے کاروبار میں کبھی کسی منفی ہتھکنڈے کا کوئی دخل نہیں ملا۔ بڑے بڑے سرمایہ کاروں‘معیشت کے موضوع پر چھپنے والے اخباروں‘ رسالوں اور نامی گرامی معاشی ماہرین کو تسلیم کرنا پڑا کہ پرنس الولید کو قدرت نے غیر معمولی صلاحیتوں سے نوازا ہے‘ ان کے کاروبار میں کوئی پراسراریت تھی تو وہ قدرت تھی۔ کئی مرتبہ انہوں نے بڑی بڑی ڈوبتی ہوئی کمپنیوں میں سرمایہ کاری کی جسے معاشی جغادریوں نے حماقت سمجھا مگر بعد میں وہی کمپنیاں سنبھل کر پہلے سے بھی زیادہ ترقی کرنے لگیں۔
پرنس الولید کے بارے میں کم معلومات رکھنے والے ایک طویل عرصہ تک یہی سمجھتے رہے کہ صرف خاندانی دولت کی بنیاد پر ان کا شمار دنیا کے سب سے دولت مند افراد میں ہوتا ہے‘ انہیں معلوم نہیں تھا کہ یہ دولت پرنس نے خود کمائی ہے‘ اس میں شک نہیں کہ شاہی خاندان سے تعلق رکھنے والے بیشتر لوگ دولت مند ہیں لیکن پھر بھی بھلا خاندانی دولت اور امارت کی بنیاد پر کوئی کتنا امیر بن سکتا ہے۔ سعودی عرب میں ویسے بھی شہزادوں کی تعداد پانچ ہزار ہے‘ ان میں سے بعض صرف شاہی وظیفے پر گزارا کرتے ہیں۔ پرنس الولید نے 1989ء تک اپنی دولت کے ابتدائی ڈیڑھ ارب ڈالر سعودی عرب میں ہی مختلف کاروبار کرتے ہوئے کمائے لیکن پھر وہ 1990ء میں خاصے دھماکا خیز انداز میں بین الاقوامی کاروبار کے میدان میں کود پڑے اور جلد ہی انہوں نے عالمی شہرت رکھنے والے سرمایہ داروں کو حیران کر دیا۔ انہوں نے اپنے تجربات کی بناء پر جلد ہی کاروبار کے سلسلہ میں تین بنیادی نکتے سمجھ لئے۔ سرمایہ کاری کے سلسلہ میں ایک خاص قسم کی ذہانت تو قدرتی طور پر ان میں موجود تھی ہی لیکن اپنی جدوجہد کے دوران انہوں نے یہ بھی سیکھا کہ دولت کمانے کا سب سے اچھا طریقہ بینک ہیں۔ سب سے زیادہ تیز رفتاری سے دولت ٹھیکوں کے ذریعہ حاصل کی جا سکتی تھی اور سب سے زیادہ دولت کمانے کا ذریعہ وہ کام تھے جو آپ مقتدر حلقوں کے قریب رہتے ہوئے کرتے ہیں۔ ان کی اپنی کاروباری زندگی انہی تین اصولوں کے گرد گھوم رہی ہے۔ انہوں نے ابتداء میں ٹھیکیداری سے پیسہ کمایا‘ پھر تعمیرات کے کام میں ہاتھ ڈالا ‘اس کے بعد انہوں نے چھوٹے چھوٹے بینکوں کو ایک دوسرے میں ضم میں کرنا شروع کیا‘ اس راستے پر چلتے ہوئے وہ سٹی بینک تک پہنچ گئے‘ اس وقت سٹی بینک بحران کا شکار تھا جب انہوں نے اس کے چھ سو ملین ڈالر کے شیئرز خرید کر اسے سنبھالا دیا۔دنیا کے کئی بڑے سرمایہ داروں نے ان کی سرمایہ کاری کو حماقت سمجھا تھا لیکن ان کی یہ ’’حماقت‘‘ آگے چل کر ان کیلئے بے پناہ کامیابی ثابت ہوئی۔
خطرات مول لینا اور جواء کھیلنے کے انداز میں نہایت چالاکی سے سرمایہ کاری کرنا بھی ان کا ایک انداز ہے لیکن کبھی وہ بے صبری اور جلد بازی میں سودا نہیں کرتے‘ اس کیلئے طویل انتظار کرتے ہیں۔ ایک بار انہوں نے ریاض میں بڑے قطعہ اراضی خریدنے کا ارادہ کیا‘ اس کے مالک نے جب دیکھا کہ پرنس جیسا سرمایہ کار اور ایک بڑی کاروباری شخصیت اس کی زمین میں دلچسپی لے رہی ہے تو اس نے خاصی ہوشربا قیمت مانگ لی۔ پرنس خاموشی سے واپس آ گئے اور انہوں نے پلٹ کر اس آدمی سے کوئی بات نہیں کی۔ کچھ دنوں بعد 1990ء میں عراق نے کویت پر حملہ کر دیا‘ پوری عرب دنیا میں ہیجان پھیل گیا‘ زیادہ تر عرب ممالک کے سربراہوں کا خیال تھا کہ یہ جنگ صرف کویت تک محدود نہیں رہے گی۔ بات بہت آگے تک جائے گی۔ پرنس الولید جس کے پاس زمین خریدنے گئے تھے اس کا مالک بھی گھبرا گیا اور بھاگتا ہوا پرنس کے پاس پہنچا‘ اس نے پہلے اپنی زمین کی جو قیمت مانگی تھی اب وہ اس کی ایک تہائی رقم لینے پر تیار تھا۔ اسے شائد یہ تیسرا حصہ قیمت ملنے کی امید بھی نہیں رہی تھی کیونکہ عرب دنیا کے بیشتر ممالک میں زمین اور جائیداد کی خرید و فروخت رک گئی تھی۔ پرنس نے مالک سے یہ زمین خرید لی‘ جلد ہی جنگ بندہو گئی‘ امریکا کی مداخلت پر عراق کو کویت پر قبضہ چھوڑنا پڑ گیا اور حالات معمول پر آ گئے اور پرنس کی زمین قیمت میں اضافے کے بعد کئی گنا مہنگی ہو گئی۔ چار سال بعد پرنس نے یہی زمین فروخت کی تو اسے ملین ڈالر کا منافع ہوا۔ یہ ہے پرنس الولید اور ان کا کاروباری انداز۔ اور یہ ہے وہ سیلف میڈ شہزادہ جس نے اپنی محنت کے بل بوتے پر مقام بنایا اور
دنیا آج اسے امیر ترین آدمی سمجھتی ہے۔

No comments:

Post a Comment